قرآن پاک اللہ تعالی کی طرف سے بھیجی گئی ایک ایسی دستاویز ھے جس میں انسان کو زندگی گزارنے کے اصولوں سے روشناس کروایا گیا ھے اور یہ غائبانہ نازل نہیں ھوئی بلکہ ایک برگزیدہ فرشتے کے ذریعے اللہ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر عرصہ تیس سال میں اتاری تھی ۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کتاب کو مقدس سے مقدس تر بنا کر انتہائی قیمتی غلافوں میں رکھا جانے لگا اس کے تقدس کی انتہا اس قدر بڑھادی گئی کہ قرآن پاک کو ایک مخلوق قرار دیا جانے گا ڈر تھا کہ اس کو پڑھنے کے بجائے پوجا نہ کی جانے لگے ۔اسے صرف ثواب کے حصول کا زریعہ بنا دیا گیا حالانکہ یہ صرف ثواب حاصل کرنے کے لیئے نہیں اتاری گئ بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات کے طور پر آخری امت کو دی گئی اس کے ایک ایک لفظ کو پڑھنے کا ثواب ضرور ھے اور ملتا ھے یہ ھمارے ایمان کا حصہ ھے مگر وہ احکامات جو خدا تعالی نے ان آیات میں دیئے ھیں ان پر عمل کرنا ھمارے لیئے زیادہ باعث آجر و ثواب ھے مثلآ نماز کے احکام کی آیات صرف قرات کر کے پڑھنے سے ثواب نہیں ھو جاتا بلکہ اس میں حکم ھے کہ روزانہ پانچ وقت کی نماز ھر مسلمان پر فرض ھے اور اس کی ادائیگی انسان کو زندگی میں مودب بناتی ھے وقت کی پابند ی سکھاتی ھے برائیوں سے انسان بچتا ھے اسی طرح حج زکوات کے فرائض کی تفصیل قرآن پاک سے ھی ملی ھے والدین کے حقوق اور اور اولاد کے فرائض والدین کی خدمت کا کیا اجروثواب ھے صلح ۔رحمی ھمدردی اچھے اخلاق اور ان کا معاشرے میں استعمال ایسے میں ھمارے علماء اور محدثین نے اپنی جانوں پر کھیل کرقرآن کو اللہ مخلوق کے بجائے اللہ کی کتاب کا درجہ بحال کروایا۔اور اسے معانی ومطالب کے ساتھ پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے کی اھمیت کا احساس دیا بادشاہ کا اعلان ہوا "جس نے آج کے بعد قران کو الله کلام کہا یا لکھا گردن اڑا دی جائے گی"بڑے بڑے محدثین علماء شہید کر دیئے گئے ساٹھ سال کے بوڑھے امام احمد بن حنبل امت کی رہنمائی کو بڑھے, فرمایا "جاؤ جا کر بتاؤ حاکم کو احمد کہتا ہے قرآن الله کی مخلوق نہیں بلکہ الله کا کلام ہے دربار میں پیشی ہوئے بہت ڈرایا گیا امام کا استقلال نہ ٹوٹا..مامون الرشید مر گیا اسکا بھائی معتصم حاکم بنا، امام کو ساٹھ کوڑوں کی سزا سنا دی گئی دن مقرر ہوا امام کو زنجیروں میں جکڑ کر لایا ﮔﯿﺎ, بغداد میں سر ہی سر تھے ایک شخص شور مچاتا صفیں چیرتا پاس آﺍﯾﺎ : " احمد احمد !مجھے جانتے ہو ؟.. فرمایا نہیں. میں ابو الحیثم ہوں بغداد کا سب سے بڑا چور احمد میں نے آج تک انکے بارہ سو کوڑے کھائے ہیں لیکن یہ مجھ سے چوریاں نہیں چھڑا سکے کہیں تم ان کے کوڑوں کے ڈر سے حق مت چھوڑ دینا.. امام میں نے اگر چوریاں چھوڑیں تو صرف میرے بچے بھوک سے تڑپیں گے لیکن اگر تم نے حق چھپایا تو امت برباد ہو جائے گی .امام غش کھا کہ گر پڑے ہوش آیا تو دربار میں تھے.. حبشی کوڑے برسا رہا تھا تیس کوڑے ہوئے معتصم نے کہا امام کہیئے
آپ نے فرمایا میں مر سکتا ہوں لیکن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین میں رتی برابر تبدیلی برداشت نہیں کر سکتا
پھر سے کوڑے برسنے لگے ..... ایک وزیر کوترس آ گیا :
" امام ایک مرتبہ میرے کان میں چپکے سے کہہ دیجئے قرآن کلام نہیں مخلوق ہے میں بادشاہ سے سفارش کرونگا "امام نے فرمایا .. " تو میرے کان میں کہہ دے قرآن مخلوق نہیں الله کا کلام ہے قیامت میں رب سے میں تیری سفارش کرونگا "۲۸ ماہ کے قریب قید و بند اور کوڑوں کی سختیاں جھیلیں۔ آخر تنگ آکر حکومت نے آپ کو رہا کردیا۔
اس آزمائش کے بعد اکیس سال تک زندہ رہے ، خلق خداکو فیض پہونچاتے رہے ، کوڑوں کی تکلیف آخر عمر تک محسوس کرتے تھے ، لیکن عبادت وریاضت میں مستقیم اور درس وتدریس میں ہمہ تن مصروف رہے ۔۱۲ ربیع الاول ۲۴۱ھ بروز جمعہ آپ نے وصال فرمایا
Comments
Post a Comment